گھر والے سب حیران‘ پریشان کہ یہ کیسے لوٹ آئی۔ میں کچھ زیادہ پریشان اور شرمندہ بھی تھی اس لئے کہ یہ میرے والدین کا گھر تھا‘(میں اپنےبچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر رہ رہی تھی) میری وجہ سے ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا
ارشاد باری تعالیٰ ہے: انسان جیسی کمائی کرے گا ویسے ہی معاوضے کا حقدار ہوگا اورمزید ایک جگہ فرمایا مفہوم ہے ہر شخص کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے قربانی دی ہوگی۔ اللہ رب العزت نے ملائکہ سے فرمایا: میں جو جانتا ہوں تم اسے نہیں جانتے اور زمین و آسمان کے ہر ذرے کا علم مجھے ہے۔ اللہ رب العزت ایسا دانا ہے جو اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر چلنے والی سیاہ چیونٹی کے اٹھنے والے چھوٹے قدم جو پتھر پر ٹکتے ہیں یا پھر وہ دوڑتی ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور دیکھتا ہے۔ ایسا واقف راز پروردگار کیا اپنے بندوں کی کوشش سے آگاہ نہیں ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم جو عمل کرتے ہو وہ لکھ لیا جاتا ہے‘‘۔ (ماخوذ: حکایاتِ رومی) اللہ تعالیٰ بڑا کریم ہے‘ وہ ہر شخص کے حال سے واقف ہے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے برابر ثواب عطا فرمائیں گے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ شانِ کریمی کا معاملہ ایسا رکھتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کون سی ایسی نیکی تھی جس کی اجرت پروردگار نے اتنی زیادہ دے دی۔ وہ عطا کرتے ہیں تو اپنی شان کے مطابق۔
ایک واقعہ جس نے میری زندگی بدل دی
بہت سال پہلے (کم و بیس 10-12 سال قبل) سردیوں کی ایک یخ بستہ رات‘ بارش ہورہی تھی‘ سب اپنے اپنے کمروں میں بند‘ گرم بستر کے مزے لے رہے تھے‘ گھر کے آنگن کے ایک کونے میں ایک بلی بارش سے بچنے کی ناکام کوشش کررہی تھی‘ میں نے دیکھا کہ شدید سردی کی وجہ سے وہ کانپ رہی ہے مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی‘ میں اٹھی اور سٹور روم سے آم کا ایک خالی کریٹ پڑا ہوا تھا وہ لائی اور اپنے کمرے کے باہر برآمدے میں لاکر رکھ دیا۔ اس میں پرانے کمبل کے ٹکڑے بچھاکر اس طرح رکھا کہ وہ اس میں بآسانی بیٹھ سکے آگے سے ایک کپڑا پردے کے طور پر لٹکا دیا تاکہ اس کو ہوا نہ لگے۔ ایک چھوٹی سی پیالی میں دودھ رکھ دیا‘ وہ دوڑتی ہوئی آئی اور اس میں آکر بیٹھ گئی۔ یہ اس کیلئے ایک محفوظ جگہ تھی‘ ایک ایسی پناہ گاہ جہاں اس کو کسی بھی چیز کا کوئی خوف و خطرہ محسوس نہیں ہوا اور سکون سے ساری رات گزاری۔ صبح کو وہ کپڑا ہٹادیا تاکہ وہ باہر نکل سکے۔ میں نے دیکھا‘ وہ دودھ اس نے سیر ہوکر پی لیا تھا۔ اس کے بعد وہ اتنی مانوس ہوگئی کہ سردیوں کا پورا موسم اس نے اپنے اسی گھر میں گزارا۔ رات کو روز اس کو دودھ دیتی رہی اور دن میں کھانے کو کبھی گوشت اور کبھی کچھ جو میسر ہوتا۔ اس نے کبھی تنگ نہیں کیااور نہ اس نے گندگی پھیلائی بلکہ گھر سے باہر چلی جاتی اور رات کو سوکر پھر صبح سویرے نکل جاتی‘ چند ماہ اس کا یہ معمول رہا۔ مجھے بھی اپنے بچوں کی طرح پیاری لگتی تھی معصوم اور بے زبان جانور تو ہوتے ہی پیار کے لائق ہیں لیکن آخر کب تک! گھر والوں کو یہ بات ناگوار گزری‘ بھائیوں نے اس کو پکڑا اور گھر سے بہت دور بلکہ میلوں دور چھوڑ آئے۔ اس بات کو کئی ماہ گزر گئے اچانک وہی بلی گھر واپس آگئی میلوں کا سفر اس نے کیسے طے کیا؟ کیسے گھر ڈھونڈا اور پہچانا؟ اس کے احساسات کو کیسے قلمبند کیا جاسکتا ہے یہ تو میرے رب کا کمال ہے اس کی شانِ کریمی ہے۔ گھر والے سب حیران‘ پریشان کہ یہ کیسے لوٹ آئی۔ میں کچھ زیادہ پریشان اور شرمندہ بھی تھی اس لئے کہ یہ میرے والدین کا گھر تھا‘(میں اپنےبچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر رہ رہی تھی) میری وجہ سے ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا لیکن کیا کرتی۔ بے زبان کو کس ز بان سے سمجھاتی کہ تم بھی میری طرح بے گھر ہو‘ بس اللہ جل شانہ کو کون سی ادا پسند آجاتی ہے وہی جانتا ہے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد ایک خواب دیکھا لوگوں کی بھیڑ میں میری دادی مرحومہ تیزی سے آئیں اور مجھے آواز دے کر بلایا۔ میں لوگوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی ان کے قریب آئی ان کے دونوں ہاتھ میں ریوڑیاں اورمٹھائی تھی جو انہوں نے مجھے دی اور پھر بڑی تیزی سے اسی رش میں غائب ہوگئیں۔ میری آنکھ کھلی‘ یوں محسوس ہوا گویا میرے ہاتھ ان چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں دل کو اطمینان ہواکہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ نعمت ملنے کی خوشخبری ہے اور اس خواب کے چند ماہ بعد ہی اللہ تعالیٰ نے غیب سے مدد فرمائی۔ مجھے اور میرے بچوں کو ایک چھوٹا سا گھر دے دیا۔ جو اس وقت میرے لئے خریدنا ناممکن تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد منظور تھی۔ ایک اللہ والے کے تعاون سے یہ ممکن ہوا۔ پروردگار کسی کے احسان کو بھی زائل نہیں فرماتے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی محنت کے بدلہ میں ایک بڑا صلہ اور انعام کااس طرح اعلان فرمایا ہے:
فان اللہ لایضع اجر المحسنین‘‘۔ترجمہ: بے شک خدا محسنوں کا بدلہ ضائع نہ کرے گا۔
قارئین! یہ تو ایک بے زبان جانور کے ساتھ حسن سلوک پر اللہ رب العزت کا انعام ہے۔ اگر ہم اسی طرح بے زبان لوگ جو لوگوں کے سامنے سوال نہیں کرسکتے ان کی چپ کرکے مدد کردیا کریں جس سے ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوتو پھر دیکھیے رب کریم کیسے کرم کی بارش کرتا ہے۔ ویسے یہ مہینہ بھی کرم کا ہے اور اس مہینے میں ابر رحمت ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح مخلوق خدا پر برس رہی ہے اگر ہم اس مہینے میں مجبور و بے کس افراد کی مدد کرنے کی ٹھان لیں اور سارا سال اپنےمشن پر قائم رہیں تو رب کریم آپ پر رمضان کی طرح پورا سال کرم کی بارش برساتا رہے گا۔ انشاء اللہ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں